بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی - ابنا - کے مطابق، ان ہی نئے محافظین نے افغانستان، عراق، شام، لیبیا میں تباہ کن جنگوں کی منصوبہ بند کی تھی - جن پر امریکی ٹیکس دہندگان کے 8 ٹریلین ڈالر ضائع ہوئے، نیز یوکرین میں مزید 69 ارب ڈالر کا نقصان ہؤا - اور اب یہی لوگ ہم (امریکیوں) کو ایک اور فوجی ناکامی کی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس بار ایران کے خلاف۔
لیکن ایران نہ تو عراق ہے، نہ افغانستان، نہ لبنان، نہ لیبیا، نہ شام اور نہ ہی یمن۔ ایران رقبے کے لحاظ سے دنیا کا سترہواں بڑا ملک ہے، جس کا رقبہ مغربی یورپ کے برابر ہے۔ اس کی آبادی تقریباً 90 ملین ہے - جو اسرائیل کی آبادی سے دس گنا زیادہ ہے - اس کے پاس فوجی وسائل ہیں، وہ چین اور روس کا اتحادی ہے؛ اور یہ خصوصیات اس کو ایک خوفناک دشمن بنا دیتی ہیں۔
ایران نے اسرائیلی حملوں ـ جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے اور متعدد اعلیٰ فوجی رہنماؤں اور چھ جوہری سائنسدانوں کی شہادت ـ کے جواب میں انتقامی کارروائیاں کی ہیں۔ تل ابیب، بیت المقدس اور دیگر مقامات پر دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، اور تل ابیب میں زمینی ویڈیوز میں ایک زبردست دھماکہ دکھائی دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ایک میزائل کا دھماکہ تھا، جبکہ شہر کے گردونواح میں نصف درجن مقامات پر مزید دھماکوں کی اطلاعات ہیں۔
ایران کے ایک بڑے عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا: "ہمارا انتقام ابھی شروع ہوا ہے، وہ ہمارے رہنماؤں، سائنسدانوں اور عوام کے قتل کی بھاری قیمت ادا کریں گے۔ اسرائیل میں کوئی جگہ محفوظ نہیں ہوگی۔ ہمارا انتقام دردناک ہوگا۔"
برطانوی سفارتکار کی رائے:
سابق MI6 افسر الیسٹر کروک نے کہا:
"نئے محافظ (نیو کز) سمجھتے ہیں جنگ آسان ہوگی۔ وہ امریکی بالادستی بحال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چھوٹے ممالک کو تباہ کرنا مفید ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ یہ گروہ نیٹن یاہو کے اتحادی ہیں جو "کسی بھی مقابلہ طاقت یا امریکی قیادت کے چیلنج کو برداشت نہیں کرتے، اور ایران کے خلاف جنگ کے ذریعے ٹرمپ کو بھی جنگ میں کھینچنا چاہتے ہیں۔"
ایک سابق برطانوی سفارت کار اور MI6 کے رکن الیسٹر کروک نے اپنے ایک انٹرویو میں نو قدامت پسندوں کے بارے میں کہا کہ "وہ سمجھتے ہیں کہ جنگ آسان ہو گی۔" "وہ امریکی طاقت اور قیادت کو دوبارہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اسے کسی چھوٹے ملک کو توڑنے کے لیے مفید سمجھتے ہیں۔"
انھوں نے مزید کہا کہ یہ نیو کنزرویٹو، جو اسرائیل میں بنیامین نیتن یاہو کی سرکردگی میں قائم اتحاد کے ارکان ہیں، "کسی بھی حریف طاقت یا امریکی قیادت اور عظمت کے کسی چیلنج کو برداشت نہیں کرتے"۔ اور وہ "زمین پر حقائق" پیدا کرنے کی کوشش کریں گے - یعنی اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ - جو "ٹرمپ کو ایران کے خلاف جنگ کی طرف دھکیل دے گی"۔
انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیل میں بنیامین نیتن یاہو کی قیادت کے ساتھ اتحاد کرنے والے یہ نو قدامت پسند، "کسی حریف طاقت یا امریکی قیادت اور بالادستی کے لیے کسی چیلنج کو برداشت نہیں کریں گے۔" وہ "زمین پر حقائق" پیدا کرنے کی کوشش کریں گے - یعنی اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ - جو ٹرمپ کو ایران کے ساتھ جنگ کی طرف دھکیل دے گی۔
اگرچہ ایرانی فضائیہ کمزور ہے جو پرانے لڑاکا طیاروں پر مشتمل ہے، لیکن ایران روسی فضائی دفاعی نظاموں، بحری جہازوں کے خلاف استعمال ہونے والے چینی ساختہ میزائلوں، اور ساحلی توپخانے اور بارودی سرنگوں سے اچھی طرح لیس ہے؛ اور یہ آبنائے ہرمز کو بند کر سکتا ہے، جو دنیا میں تیل کی نقل و حمل کا سب سے اہم راستہ ہے اور عالمی سپلائی کا 20% تیل کی گذرگاہ یہی ہے۔
اس سے تیل کی قیمتیں دو یا تین گنا بڑھ کر عالمی معیشت کو مفلوج کر سکتی ہیں۔ ایران کے پاس بیلسٹک میزائلوں کا ایک بڑا ذخیرہ ہے جنہیں وہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ خطے میں امریکی اڈوں پر بھی داغ سکتا ہے۔ اور اگرچہ پہلی لہروں کو روکنا ممکن ہے، لیکن بار بار حملے اسرائیل اور ریاستہائے متحدہ کے فضائی دفاعی ذخائر کو تیزی سے ختم کر دیں گے۔
اسرائیل ایک فرسودہ کر دینے والی طویل المدت جنگ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، جیسا کہ ایران اور عراق کے درمیان آٹھ سالہ جنگ ـ جس میں صدام حسین کے نظام کو امریکی حمایت حاصل تھی لیکن اس کے باوجود ـ کوئی فیصلہ نہ ہو سکا، یا جیسا کہ اسرائیل کا جنوبی لبنان پر صہیونی ریاست 18 سالہ قبضہ جو مئی 2000 میں حزب اللہ کے ہاتھوں مسلسل نقصانات کے بعد انخلا پر منتج ہوا۔
جان میئرشیمر کی رائے
جب ایران نے "وعدہ صادق" آپریشن کے تحت 13 اور 14 اپریل 2023 کو دمشق میں ایرانی سفارتخانے پر اسرائیلی حملے کے جواب میں اسرائیلی فوجی اور خفیہ مقامات پر 300 سے زائد بیلسٹک اور کروز میزائل داغے، تو امریکہ نے ان میں سے اکثر کو روک لیا۔
شکاگو یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر اور ویسٹ پوائنٹ گریجویٹ جان میئرشیمر ((John Joseph Mearsheimer)) نے کہا: "اسرائیل ایرانی میزائل حملے کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا"۔
انھوں نے مزید کہا: "ہم ایک دلچسپ صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں، اسرائیل ان جنگوں میں فتح حاصل نہیں کر سکتا، لیکن یہ طویل المدت جنگیں کھڑی کر دیتا ہے جن میں وہ امریکہ پر شدید انحصار کرتا ہے"۔
انہوں نے مزید کہا: "ہمارے (یعنی امریکیوں کے) پاس مشرق وسطیٰ اور بحیرہ روم کے ساتھ ساتھ خود اسرائیل اور بحیرہ احمر میں بہت سے اثاثے ہیں۔ یہ اثاثے اسرائیل کو اس کی جنگوں میں مدد کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ یہ صرف ایران تک محدود نہیں، بلکہ حوثی اور حزب اللہ بھی اس میں شامل ہیں، ہم ان کی لڑائی میں مدد کرنے میں تہہ در تہہ ملوث ہیں، جبکہ 1973 اور اس سے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں تھا"۔
اسرائیلی اور ان کے نیو کنزرویٹو اتحادیوں کو یقین ہے کہ گویا وہ طاقت کے ذریعے ایرانی جوہری پروگرام کو ختم کر سکتے ہیں، اور ایرانی حکومت کو گرا کر ایک کٹھ پتلی نظام قائم کر سکتے ہیں۔ یہ منطق، جو حقیقت پر مبنی نہیں ہے، افغانستان، عراق، شام اور لیبیا میں پہلے ہی ناکام ہو چکا ہے، لیکن صہیونی اور ان کے امریکی ساتھی عبرت نہیں لیتے اور اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے۔
اسرائیلی ریاست اِس وقت پوری دنیا کی توجہ غزہ میں کی جانے والی نسل کشی اور بڑے پیمانے پر قحط، نیز مغربی کنارے میں تیز ہوتی ہوئے نسلی صفایا سے ہٹانا چاہتا ہے۔ غزہ میں انٹرنیٹ کا رابطہ مکمل طور پر منقطع کر دیا گیا ہے، جبکہ مغربی کنارہ مکمل محاصرے میں ہے۔
جان میئر شیمر نے کہا: "اسرائیلوں کے یہ محافظ پرامن حالات سے بھی کہیں زیادہ، تیار ہیں کہ اسرائیل کے کرتوتوں کا جواز فراہم کریں؛ چنانچہ آیئے کشیدگی میں اضآفہ کریں، ایک عمومی جنگ کا آغاز کریں اور نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم غزہ ـ اور ممکنہ طور پر مغربی کنارے میں بھی ـ وسیع پیمانے پر نسلی صفایا کر سکیں گے؛ اور صہیونیوں کے ان محافظوں کے اس کردار کی وجہ سے اسرائیلیوں کو اس بات کا احساس ہے کہ اگر کشیدگی میں عام اضافہ ہوا تو کوئی بھی فلسطینیوں پر زیادہ توجہ نہیں دے گا۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ